مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح (بروز جمعہ) بہار کی آمد اور نئے ہجری شمسی سال 1393 کے پہلے دن حضرت امام رضا علیہ السلام کے حرم مبارک میں لاکھوں زائرین اور مجاورین کے عظیم اجتماع میں نئے سال کی دوبارہ مبارکباد پیش کی اور نئے سال " یعنی قومی عزم و جہادی مدیریت کے ساتھ ثقافت و معیشت کے سال" میں ملک کے طویل روڈ میپ کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کی اور پائدار و مقاوم اقتصاد کے شرائط، ظرفیت اور حقیقت کی تشریح کے ساتھ ثقافت کے اہم شعبہ کے اوامر و نواہی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ہمیں خود کو اتنا قوی اور مضبوط بنانا چاہیے تاکہ عالمی منہ زور اور تسلط پسند طاقتیں ایرانی قوم کے کسی حق کو پامال اور نظر انداز نہ کرسکیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے سال میں اپنی اصلی بات یعنی قوم و ملک کے قوی و مضبوط ہونے کی ضرورت اور قومی اقتدار میں اضافہ کی وضاحت فرمائي اور کمزور قوموں کے حقوق کو عالمی منہ زور اور تسلط پسند طاقتوں کی طرف سے ضائع کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: عالمی سطح پر چلنے والے مادی نظام میں سامراجی اور تسلط پسند طاقتیں اپنی مرضی کو کمزورممالک پر مسلط کرتی ہیں لہذا ہمیں قوی اور مضبوط ہونا چاہیے اور ترقی و پیشرفت کی سمت آگے بڑھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے سال کے نام " قومی عزم و جہادی مدیریت کے ساتھ اقتصاد و معیشت " کے انتخاب کو سن 1393 کا کلی روڈ میپ قراردیا اور ملک کی وسیع ظرفیتوں ،وسائل ، قوم کے کامیاب تجربات اور بلند گاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس نعرے پر قوم اور حکام کی توجہ مرکوز ہونے کے ساتھ قومی اقتدار کا مایہ ناز راستہ برق رفتار کے ساتھ طے ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک قوم کی قدرت و طاقت کے اصلی عناصر کی تشریح میں پیشرفتہ ہتھیاروں کے ہونے کو ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: اقتصاد ، ثقافت اور علم و دانش قومی اقتدار کے تین اصلی عناصر ہیں اور اللہ تعالی کی مدد و نصرت سے حالیہ بارہ برسوں میں علم و دانش کے بارے میں ہمیں خاطرخواہ اور درخشاں پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قومی اقتدار کے دو باقی عناصر یعنی اقتصاد و ثقافت کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ اہتمام کو ضروری قراردیا اور اپنے خطاب کے پہلے مرحلے میں مسئلہ اقتصاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہمیں ایران کے اقتصاد اور معیشت کو اتنا قوی بنانا چاہیے تاکہ دنیا کا کوئي اقتصادی بحران،اور امریکہ اور غیر امریکہ سمیت کوئی شخص ایک نشست و برخاست میں ملک کی معیشت اور اقتصاد پر اثر انداز نہ ہوسکے اور یہ وہی پائدار اور مقاومتی اقتصاد و معیشت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پائدار اقتصاد و معیشت کی پالیسیوں کے ابلاغ اور تینوں قوا اور دیگر حکام کی طرف سے ان کے استقبال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین اہم سوال پیش کئے اور پھر ان کے جوابات بھی دیئے۔
1: پائدار اور مقاومتی اقتصاد کی سلبی اور ایجابی خصوصیات کیا ہیں؟
2: کیا اس ہدف تک پہنچنا ممکن ہے یا آرزو اور خام خیالی ہے؟
3: اگر اس ہدف تک پہنچنا ممکن ہے تو اس کے شرائط و خصوصیات کیا ہیں؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پہلے سوال "یعنی پائدار اقتصاد کی خصوصیات " کے جواب میں فرمایا: پائدار اقتصاد ایک علمی نمونہ ہے جو ملک کی ضروریات کے متناسب ہے البتہ بہت سے دیگر ممالک بھی عالمی اقتصادی اور سماجی بحرانوں کے اثرات کم کرنے کے لئے اپنے خاص شرائط کے مطابق پائدار اقتصاد و معیشت پر عمل پیرا ہیں۔
بیرونی نگاہ کے ساتھ اندرونی پیداوار ، وسائل اور ظرفیتوں پر تکیہ اور دیگر ممالک کے اقتصاد کے ساتھ درست تعامل ،پائدار اقتصاد کی دوسری خصوصیت تھی جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ فرمایا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: افسوس کے ساتھ بعض قلم اور زبانیں یہ شبہات پیدا کرنے کی تلاش کررہی ہیں کہ ایران کے اقتصاد کو محدود اور محصور بنا کر قوم و ملک کی سعادت اور پائدار اقتصاد کی راہ مسدود کی جارہی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ ملک کے پائدار اور مقاوم اقتصاد کا عالمی اقتصاد کے ساتھ صحیح اور درست تعامل ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پائدار اور مقاومتی اقتصاد کی تیسری خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: یہ اقتصاد حکومتی اقتصاد نہیں ہے بلکہ اس کا محور عوام ہیں۔ البتہ حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ شرائط ، ہدایت اور تعاون کی راہ ہموار کرکے عوام کی شراکت اور ان کی سرمایہ کاری کے لئے اسباب اور وسائل فراہم کریں ۔
صنعت و زراعت میں سرگرم افراد و ماہرین کے تجربات سے استفادہ کے ساتھ ساتھ اقتصاد کے علمی محور پر ہونے کی دوسری تعبیر تھی کہ جس میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مقاومتی اقتصاد کی خصوصیات کے مزید عام فہم بنانے کے لئے استفادہ پر تاکید فرمائي۔
عالمی سطح پر رائج اقتصادی معیاروں جیسے قومی رشد، ناخالص پیداوار اور پابندیوں اور غیر پابندیوں کے تمام شرائط میں پائدار اقتصاد کے مؤثر ہونے کے ساتھ سماجی اور اقتصادی انصاف پر توجہ آخری خصوصیت تھی جسے رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پہلے سوال کے جواب میں پائدار اقتصاد و معیشت کی سلبی و ایجابی خصوصیات کے طور پر بیان کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےحرم رضوی کے زائرین اور مجاورین کے عظیم اجتماع سے خطاب میں ایک خاص سوال کے جواب کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: کیا پائدار اور مقاومتی اقتصاد و معیشت ایک آرزو اور وہم و خیال نہیں ہے؟ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ٹھوس حقائق اور اطلاعات کی روشنی میں اس سوال کا جواب نفی میں دیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عظیم ظرفیتوں کے ساتھ جوانوں کی افرادی قوت، یونیورسٹیوں کے دس ملین طلباء، مدارس کے 4 ملین سے زائد طلباء اور کئی ملین صنعتی و غیر صنعتی دیگر ماہرین و تجربہ کار افراد ، بہت ہی گرانقدر اور فراواں قدرتی وسائل، بے مثال جغرافیائی پوزیشن اور انفراسٹرکچرز کےسافٹ ویئراور ہارڈ ویئراس بات کا مظہر ہیں کہ پائدار اور مقاومتی اقتصاد و معیشت یقینی طور پر قابل عمل اور قابل تحقق ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ ممکن ہے کہ کوئی یہ بات کہے کہ اقتصادی پابندیاں ان ظرفیتوں اوروسائل سے استفادہ کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہیں لیکن کیا ہم نے انہی شرائط میں سائنسی اور دفاعی شعبوں منجملہ نینو ٹیکنالوجی، سٹیم خلیات اور جوہری توانائی اور دفاعی صنعت اور میزائل سسٹم میں حیرت انگيز اورخيرہ کنندہ پیشرفت حاصل نہیں کی؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ان حقائق کے پیش نظر اگر ہم اپنے عزم کو بالجزم کریں اور ایکدوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں اور دشمن کی طرف نہ دیکھیں کہ وہ کس وقت پابندیاں اٹھائے گا یا نہیں اٹھائے گا تو ہم دیگر شعبوں منجملہ اقتصاد کے شعبہ میں بھی یقینی طور پر قومی اقتدار تک پہنچ سکتے ہیں۔
تیسرا سوال پائدار اقتصاد کے محقق ہونے کے شرائط پر مبنی تھا اس کی اہمیت کے پیش نظر رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے سال کے پہلے دن اپنے خطاب میں اس کی طرف اشارہ فرمایا۔
اس سلسلے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کا جواب 4 ضرورتوں پر مبنی تھا: 1۔ ملک کی پیشرفت کے بنیادی حلقہ کے عنوان سے قومی پیداوار پر حکام کی ہمہ گیر توجہ اور حمایت، 2۔ سرمایہ کاروں اور پیداوار میں مشغول افراد کی کارکردگی اور قومی پیداوار کو اہمیت دینا،3۔ سرمایہ کاروں کی غیر پیداواری شعبوں کے بجائے پیداواری شعبوں میں تشویق کرنا،4۔ قوم کی اندرونی اور داخلی پیداوار سے استفادہ پر تاکید۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 4 نکات کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: ہم یہ نہیں کہتے کہ غیر ملکی چیزیں خریدنا حرام ہیں لیکن ملک کی پیشرفت اور اقتصاد کو مضبوط اور مقاوم بنانے کے لئے داخلی اشیاء کا مصرف ایک اہم ضرورت ہے اور تمام مسائل منجملہ روزگار کی فراہمی اور داخلی پیداوار کی کیفیت کی افزائش میں اس کا اثر مثبت ہوگا البتہ اس سلسلے میں دوسروں کی نسبت اعلی حکام اور اعلی عہدیداروں کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس حصہ میں اپنے خطاب کو سمیٹتے ہوئے ملک کی معیشت اور اقتصاد کو مضبوط اور پائدار بنانے کے لئے حکام اور عوام کے درمیان تعاون پر تاکید کی اور ثقافت کے موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ثقافت کا موضوع ، اقتصاد سے بھی کہيں زيادہ اہم ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافت کی اہمیت کی علت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: ثقافت ہوا کے مانند ہےچاہے ہم چاہییں یا نہ چاہییں ہمیں سانس لینے کی ضرورت ہے لہذا اگر ہوا صاف یا آلودہ ہو تو اس کے ملک اور معاشرے پر متفاوت اثرات مرتب ہوں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کی نگاہ میں اندرونی پیداوار، قانون مداری، اور خاندانی مسائل کے سلسلے میں ثقافت کے بےمثال اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: عوام کی سیاسی ، سماجی اور اقتصادی مسائل کے سلسلے میں روزمرہ کی تمام عادات و رفتار ان کی ثقافت کا مظہر ہیں، لہذا تمام مسائل اور دیگر شعبوں پر ثقافتی اعتقادات کا اثر ہوتا ہے جو سب سے اہم ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ثقافت کے بارے میں دشمنوں کی توجہ کو ثقافت کی اہمیت کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: ثقافتی امور سے متعلق حکام کو چاہیے کہ وہ دشمنوں کی ثقافتی خلاف ورزیوں کے بارے میں آگاہ اور ہوشیار رہیں اور اس سلسلے میں اپنی دفاعی اور ایجابی ذمہ داریوں پر عمل کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافت کے سلسلے میں اندرونی خامیوں اور کوتاہیوں کے منفی اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ثقافت کے میدان میں تمام مشکلات کی ذمہ داری دشمن پر عائد نہیں ہوتی لیکن گذشتہ 35 برس میں اس سلسلے میں دشمن کی سرگرمیوں اور فعالیتوں کا انکار اور انھیں نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آزادی کو اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی انقلاب کے بنیادی اور اساسی نعروں میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: حکام کی انحرافات اور مفاسد کے بارے میں حساسیت کا آزادی کے ساتھ کوئی تضاد نہیں کیونکہ آزادی اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے آزادی اور انحراف ، فساد اور غیر اخلاقی حرکتوں کے درمیان مکمل طور پر بہت بڑا فرق اور تفاوت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بغیر ضابطہ کے آزادی کو بے معنی قراردیا اورآزادی کے مدعی مغربی ممالک کی طرف سے قائم ریڈ لائنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یورپ میں کسی میں اتنی ہمت نہیں جو ہولوکاسٹ کے بارے میں شک و تردید ایجاد کرے جبکہ اس کی اصل حقیقت کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے اس کے باوجود وہ ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم انقلاب اسلامی اور اسلام کی ریڈ لائنوں کو مد نظر نہ رکھیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض موجودہ مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر کوئی شخص قومی استقلال کی روح کا مذاق اڑائے، ، وابستگی کا ںظریہ بیان کرے، معاشرے کے اسلامی اور اخلاقی اصولوں کی توہین کرے، انقلاب کے اصلی نعروں کو اپنی یلغار کا نشانہ بنائے، فارسی زبان اور قومی عادات کو حقیر قراردے اور غیر اخلاقی حرکتوں کی ترویج کرے، ایرانی جوانوں کی قومی عزت و غیرت کو نشانہ بنائے تو کیا ایسی تخریبی سرگرمیوں کے مد مقابل بے تفاوت اور خاموش رہنا چاہیے؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حجاب جیسے مسائل کے بارے میں مغربی ممالک کے عدم تحمل اور بعض ممالک کے عوام کے بارے میں ان کے اندھے تعصب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مغربی ممالک کے تحمل اور برداشت کے یہ شواہد اور علائم ہیں جبکہ بعض عناصر، ایران کی باثقافت اور نجیب قوم کو ان کی رغبت دلاتےہیں۔!
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت سےمتعلق مستقیم یا غیر مستقیم ثقافتی اور تبلیغاتی اداروں کے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: غیر ملکی ذرائع ابلاغ یا اغیار کے ہمدرد ذرائع ابلاغ کے مکر و فریب سے ہرگز نہ گبھرائیں اور اپنی رفتار کو ان کی رفتار سے ملانے کی کوشش نہ کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافتی اداروں کے حکام کی سنگين ذمہ داریوں اور وظائف کی تشریح کے بعد فرمایا: ثقافت کے بارے میں میرا اہم نکتہ ان انقلابی اور مؤمن جوانوں سے خطاب ہے جو ملک بھر میں ذاتی جوش و ولولہ کے ساتھ ثقافتی سرگرمیوں میں مشغول ہیں اور انھوں نے اس سلسلے میں بہت اچھے اور نمایاں کام انجام دیئے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جوانوں کو تاکید کرتے ہوئے فرمایا: میرے عزیزو آپ اپنے کام کو سنجیدگی کے ساتھ جاری رکھیں کیونکہ آپ کی ثقافتی سرگرمیوں نے انقلاب کے آغاز سے ہی ملک کی پیشرفت اور استقامت میں اہم نقش ایفا کیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافتی مراجع منجملہ علماء ، اساتید، اسلامی مفکرین، اور متعہد ہنرمندوں کو ایک اہم سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ثقافتی حالات کے بارے میں اپنی تنقیدی نظر کو برقرار رکھیں اور واضح اور صریح بیان و منطق کے ساتھ حکام کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرتے رہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اس سلسلے میں الزام تراشی ، شور و غل اور تکفیر سے بالکل پرہیز کرنا چاہیے۔اور ملک کے انقلابی مجموعہ منجملہ انقلابی جوانوں اور ممتاز شخصیات کو اپنے محکم و مضبوط اور منطقی دلائل کے ساتھ حکام کے بارے میں تنقید کرنی چاہیے اور ثقافت کے سلسلے میں یہ وہی قومی عزم اور جہادی مدیریت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سال 92 کو سیاسی اور اقتصادی رزم و جہاد کے نام سے موسوم کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عوام سے سیاسی رزم و جہاد کے سلسلے میں جو توقع تھی وہ انھوں نے پوری کی اور عوام نے دو موقعوں پر یعنی گیارہویں صدارتی انتخابات اور 22 بہمن کی عظیم ریلیوں میں سیاسی رزم کو عملی جامہ پہنایا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گیارہویں صدارتی انتخابات اور 22 بہمن کی عظیم ریلیوں کے دو واقعات کو عالمی میڈیا کی یلغار کے مقابلے میں ایرانی قوم اور ملک کے حقائق کے سلسلے میں ہمہ گیر ذرائع ابلاغ قراردیا۔
آپ کا تبصرہ